میرا فرض تحریر: جوہر علی
- Modern Youth Thoughts
- May 17, 2020
- 2 min read
احباب امید ہے آپ تمام اپنی جگہ پر خیروآفیت سے ہونگے زندگی کی اُلجھنوں میں پھنسے پتہ بھی نہیں چلا کہ ہم کہاں تھے کہاں آگئے ؟ جینے کی جستجو میں ہم بھول گئے اپنے آپ کو اپنے فرائض کو بس سب اسی آس میں بیٹھے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا کہیں پہ امیروں کا راج ہے تو کہیں پہ غریبوں کے سیسکتے بچے کہیں پہ طاقتوروں کی حکومت تو کہیں پہ کمزروں کی قبریں ۰ ہمیں سب واضح دیکھائ دیتا ہے سب کچھ لیکن ہم دیکھنا نہیں چاہتے دیکھ بھی لیں تو پھر بولنا نہیں چاہتے ' جانتے ہو کیوں ؟ کیونکہ ہم خود کو بھول چکے ہیں کہ ہم کون ہیں کیا ہیں ہمارا کیا فرض ہے ؟ دنیا ایک وبا کی زد میں ہے اور اس وقت ہمارا فرض کیا ہے ؟ کیا ہم نے اپنا فرض پورا کیا ؟ جواب اپنے اندر تلاش کریں یقیناً نفی میں آۓ گا کیونکہ ہم نے کبھی اپنے اندر دیکھا ہی نہیں وجہ فکرِدنیا بس زرا غور کریں خود سے نکل کر تب واضح ہو جاتا ہے ہمارا کیا فرض ہے ایک معاشرے میں رہتے ہوئے ہم نے اپنا فرض پورا کرنا ہے کہیں پہ بیٹیوں کی ناموس محفوظ نہیں ہے تو کہیں پہ حقدار اپنے حق سے محروم پڑھ لکھ کے ملک کا مستقبل روشن کرنے والے نوجوان بےروزگاری سے تنگ آکر یا چور بن جاتے ہیں یا دہشت گرد لیکن کیوں؟ اپنے گھر کا کچرا دہلیز سے باہر پھنک دیا بس اپنے گھر کی کھڑکی اور دروازے بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں کہ کوی آے اور لےجائے کیا ہم نے اپنا فرض پورا کیا ؟نہیں دن رات محنت کر کے ایک طالبعلم جب کمرہ جماعت میں اپنا امتحان دینے بیٹھ جاتا ہے اور اُس کی بگل میں بیٹھا طالب علم نقل کر کے اس سے بہتر نمبر حاصل کر لیتاہے رشوت دے کے وہی بچہ جب حقدار کا حق کھا رہا ہوتا ہے تب بھی کوئ نئیں بولتا ۔ کیا میں نے اپنا فرض پورا کیا ؟ نہیں جب سب کو معلوم ہے ایک درخت چار انسانوں کی جان بچا سکتا ہے پھر بھی ہم کاٹتے ہیں کبھی ہم نے درخت لگا کر اپنا فرض پورا کیا ؟نہیں مزہب کے نام پہ انسانیت کو بھول گئے کیا کھبی ہم نے انسانیت کو پہلے رکھ کے اپنا فرض پورا کیا ؟ نہیں بردرانِ عزیز قومیں کبھی صرف اپنی حد تک سوچنے سے نہیں بنتی ہیں سب کو ساتھ لے کے چلنےسے بنتی ہیں ایک دوسرے کا سہارا بنے سے بنتیں ہیں خدا را جاگو اپنا فرض پورا کرو ایک قوم بنو اس چھ فٹ کے جسم کی فکر سے خود کو آزاد کر کے اس دُنیا کو جنت بناو اس خودغرضی کے نظام کو ہی بدل ڈالو شاعر کہتا ہے خود نہیں گرتے پھل جھولی میں وقت کی شاخ کو تادیر ہلانا ہوگا کچھ نہیں ہوتااندھروں کو بُرا کہنے سے اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا
Comments