از نوکِ قلم✒️ساجد حسین چین کے سفر نامے نوکِ قلم سے قسط نمبر1
- Modern Youth Thoughts
- Jul 23, 2020
- 6 min read
انسان کے بہت سارے مشغلے ہوتے ہیں جن سے وہ لطف اندوز بھی ہونا چاہتا ہے اور ان مشغلوں سے وہ سبق بھی لینا چاہتا ہے اسکے لئے انسان کے ساتھ بہتر وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ وسائل کی وجہ سے بندے میں بہت سے ایسے مسائل کا حل موجود ہوتا ہے جن سے وہ بہتر انداز سے نمٹ سکے۔
ﷲ تعالیٰ کا ایک نظام ہے جو ہر انسان کے ساتھ اسکی بساط کے مطابق مختلف ہوتا ہے اسی طرح میری بساط کے مطابق سب سے بڑا مشغلہ لمبے سفر کرنے کا ہے۔۔ لمبے سفر تو تقریباً گلگت کے راستے میں بہت کیے مگر سب سے بڑا اور سبق آموز سفر میرا چین کا رہا۔
اِدھر مجھے چائنہ گورنمنٹ اسکالرشپ سے نوازا گیا اُدھر سفر پر جانے کی تیاری شروع ہوئی بارانی یونیورسٹی والے حضرات نے کبھی اِدھر دوڑایا کبھی ادھر بلاآخر خدا خدا کر کے ڈگری کا وہ انمول ٹکڑا مل ہی گیا۔
پھر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لمبی لمبی قطاروں سے گزرے ہی تھے تو منسٹری آف فارن افیئرز کے ہاتھوں زحمتیں اٹھانی پڑیں۔ یہ مرحلہ گزرا ہی تھا تو سفارت خانے سے ویزا لینا پڑا یہ ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے جس میں انسان کی موت اور زندگی دونوں شامل حال ہوتے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے دل میں ایک الگ سا خوف لاحق ہوتا ہے کہ میرا ویزا لگے گا یا رد ہوگا۔ وہ مثل مشہور ہے نا کہ جادوگر کی زندگی ایک طوطے میں قید ہوتی ہے ویسا ہی ایک چائنہ جانے والے طالب علم کی زندگی ویزے پر قید ہوتی ہے۔ خیر معذرت یہ ہر ایک بندے کے نصیب میں ہوتا ہے جس سے ہر کسی کا گزر ضرور ہوتا ہے یہ مجھ اکیلے کی کہانی نہیں۔
یہ ہماری بڑی عید یعنی بکرا عید کے دن تھے جس کی وجہ سے اسلام آباد میں ایک خاموشی تھی۔ ہمارے کزن بھائی شاکر حسین(جیلن)، فخر بھائی(شنگھائی)، حیدر بھائی(شیان)، اصغر بھائی (بیجنگ) اور میرے ساتھ عبدﷲ جو میرا کلاس میٹ بھی رہا ہے اپنی گزشتہ بارانی یونیورسٹی میں۔ یہ سب دوست بھی اپنے اپنے ویزوں کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ آخر کار وہ دن آ گیا کہ میرا ویزا مل ہی گیا جسکی خوشخبری میرے قریبی دوست اصغر بھائی نے سنائی۔
اسکے بعد ہم نے (میں، شاکر حسین بھائی اور مطہر حسین بھائی) نے چین کے بائے روڑ سفر کا منصوبہ بنایا مطہر حسین بھائی کو ہم نے اپنے سفر کا کیپٹن مقرر کیا کیونکہ چین کی زبان اور دیگر اہم معاملات میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ اس طرح ہمارا سفر بائے روڑ طے پایا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم صبح چار بجے گھر سے روانہ ہونگے اور وقت پر سوست پہنچ جائیں گے۔بڑے محترم بھائی محمد حسین کی گاڑی لی اس طرح ہم رخت سفر میں محو ہوئے بھائی ڈرائیو کر رہے تھے چچا نادر حسین بھی ساتھ سوست تک آنے کے لیے آمادہ ہوئے۔ اس طرح ہم نومل میں پہنچ کر صبح کی نماز ادا کی۔
نماز کے بعد ہم مختلف دلفریب جگہوں پر سے گزرے جن مقامات کا ذکر سنا تھا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے میں کامیاب ہوئے۔ صبح کے آٹھ بجے ہم سوست پورٹ پہنچ گئے وہاں پر بھتیجے ابرار کھومے والے نے ہمارا استقبال کیا اور چائے آفر کی اس دن پورٹ پر کچھ ہنگامی حالات تھے کیونکہ پورٹ کے عملے سے کسی نے غلط بیانی اور ذد و قوب کیا تھا اس لیے عملہ شدید غم و غصے کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
خیر ہمارا سامان چیک ہو رہا تھا اسی دوران ہم نے کرنسی بھی تبدیل کی اور تاشکرغان کے لیے بذریعہ نیٹکو ٹکٹ بھی خریدے۔
ہم پاک چائنہ باڈر پہنچے اور چائنہ کے حدود میں داخل ہوئے جس کو عرف عام میں خنجراب ٹاپ بھی کہا جاتا ہے۔ تب تھوڑی سی سردی کا بھی احساس ہوا۔
پاکستان سے آئے ہوئے سیاح اپنے سیر کے مزے لوٹ رہے تھے مگر ہمیں اجازت نہیں ملی کہ ہم بھی انکے ساتھ کچھ لمحے گزارے اسی اشناء میں ہماری گاڑی چائنہ گیٹ پر داخل ہوئی اور ہمیں آرڈر ملا کہ اپنا اپنا سامان کھول کر خود کی اور سامان کی بھی تلاشی دی جائے۔
میرے ساتھ مختصر سا سامان تھا مگر وہ میرے لیے کوئی کارآمد ثابت نہیں ہوا اسکی وجہ یہ تھی کہ لیپ ٹاپ کے ساتھ ایک اضافی ہارڈ ڈسک موجود تھی۔ ہماری تلاشی ختم ہی ہوئی تھی ہمارے سامان کی بھی پڑتال شروع کی گئی۔ میرے ساتھ آئے ہوئے رفیقوں کی تلاشی جلد ختم ہوئی مگر۔۔۔۔میری ہارڈ ڈسک کی تلاشی منفرد انداز سے شروع ہوئی۔ ہارڈ ڈسک میں موجود ایک ایک تصویر کو ایسے چیک کیا گیا جیسے کسی کے جسم کا معائنہ بھی ایسے نہیں کیا جاتا۔ ایک گھنٹے کی طویل چیکنگ کے بعد میری ہمت ختم ہونے لگی بھوک پیاس اور چینیوں کا دباؤ ایک طرف زبان سے بھی نا آشنا اب بندہ کرے تو کیا کرے۔ خیر میری ہارڈ ڈسک کا معائنہ ہوا ہمیں جانے کی اجازت مل ہی گئی گاڑی والے تمام ساتھی بے صبری سے اس انتظار میں تھے کہ کب آئے گا اور ہم اپنے منزل کی طرف گامزن ہونگے۔
چائنہ کے اس سفر میں مجھے ایک بات بہت اچھی بھی لگی اور منفرد بھی وہ یہ کہ چینیوں کو اپنی سرزمین سے بہت پیار ہے۔ جوں ہی ہم نے چائنہ پاکستان باڈر سے سفر کا آغاز کیا یہ بات نوٹ کی کہ صرف سڑک کو خالی چھوڑی گئی ہے اور سڑک کنارے بارڈ لگا کر محفوظ کیا گیا ہے اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انکو اپنی سرزمین بہت عزیز ہے۔
ہم تاشکرغان کے حدود میں داخل ہوئے اور یوں خنجراب پورٹ پر دوبارہ سامان کی تلاشی ہونے لگی جوں ہی ہم پورٹ کے گیٹ سے اندر آنے لگے تب ذہر کے پانی سے ہماری گاڑی دھوئی گئی۔ کیوں کہ پاکستان سے کوئی جراثیم داخل نہ ہو۔
تاشکرغان کی تلاشی کے بعد ہمیں کاشغر کا سفر کرنا تھا ہم نے پرائویٹ گاڑی بک کی اور رات کو کاشغر پہنچ گئے وہاں پر گلگت کے سوداگر موجود تھے۔ انہوں نے کافی حد تک اچھی خاصی خاطرداری کی۔
یونیورسٹی میں رجسٹریشن کے دن قریب آتے جا رہے تھے اگلی صبح ہم ایرپورٹ کی طرف چلے گئے وہاں پتا چلا کہ بیجیگ کی فلائٹ ہمارے پروگرام کے مطابق نہیں ہورہی ہے اور جو ایک دن بعد ہونے والی فلائٹ کافی مہنگی تھی اس کے بعد ہم ٹرین کے سٹیشن پہنچ گئے تو معلوم ہوا کہ دو دن تک کوئی ٹرین اورمچی تک نہیں جائے گی پھر ہم نے آخر میں یہ فیصلہ کیا کہ اورمچی تک بذریعے بس چلے جائیں گے۔ ہم نے ساتھ ہی اورمچی سے بیجیگ فلائٹ کاشغر سے ہی بک کروا لی۔
ہم نے بس کا سفر شروع کیا ہمیں اپنے پاکستانی پاسپورٹ کی اہمیت کا بھی بخوبی اندازہ ہوا کہ کتنی عزت دی جاتی ہے ہمیں اتارا جاتا تھا اور کافی دور پولیس چوکی پر ہماری انٹری کی جاتی تھی ہر چوکی پر ہمارا ایسے ہی استقبال کیا جاتا تھا جیسے کہ ہم کہیں کسی دوسرے سیارے سے نمودار ہوئے ہوں۔
یہ حالت ہمارے ساتھ اورمچی پہنچنے تک رہی۔
شاکر بھائی کافی گپ شپ میں ماہر ثابت ہوئے گفتگو کے تبادلے سے ہم نے سفر بہت مزے سے گزارا۔
اٹھائیس گھنٹے کے طویل سفر کے بعد بالاخر ہم ارومچی پہنچ ہی گئے۔ ہوٹل بک کروا لیا اور حسین اکبر انکل نے کافی اچھے اور پرتباک انداز میں ہمارا استقبال کیا وہاں ہمارے ڈسٹرکٹ استور سے بھی کافی سوداگر موجود تھے ان سے بھی ملاقات کا موقع ملا۔
اتنے میں ساجد حسین بھائی شنگھائی والے بھی وہاں پہنچ گئے اور ہمارے گروپ میں شامل ہو کر کافی حد تک اچھا ساتھ دیا۔ اچھا خاصا اور دلکش وقت گزرا اور سفر کی تھکاوٹ بھی ختم ہونے لگی۔ پورے سفر میں عجیب بات یہ تھی کہ کھانے میں کوئی بھی چیز کا دل ہی نہیں کرتا تھا کہ بندہ کھا لے۔ اورمچی پہنچ کر تاپنجی نامی ایک ڈش کھائی جو چکن کڑاہی نما ہوتی ہے وہ کھا کر ایسا لگا کہ ہم نے پیٹ بھر کر تسلی بخش کھانا کھا لیا۔
اگلی صبح ہماری اورمچی ائیر پورٹ سے بیجیگ کی فلائٹ ہوئی اور آخر میں ہم بیجنگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچ ہی گئے۔
شاکر بھائی اور مطہر بھائی کے ساتھ بیجنگ کے ایک ہوٹل میں رات گزاری۔ اب ان دونوں کا سفر باقی تھا اور میں منزل مقصود میں پہنچ گیا۔ اس سفر میں ہمارے پورے پانچ دن لگے۔
اس سفر سے یہ سبق ملا کہ انسان کی زندگی ناختم ہونی والی کہانی ہے۔ انسان چاہے مر بھی جائے سفر قیامت باقی رہتا ہے۔
چین کے سفرنامے جاری ہیں۔۔۔
جن میں بندہ حقیر کے چین میں گزرنے والے حالات زندگی اور چین کے مختلف مقامات کا ذکر کیا جائے گا۔ انشاءﷲ
Comments