میرا صوبہ میری مرضی تحریر : سہیل عباس
- Modern Youth Thoughts
- May 21, 2020
- 4 min read
جیسے کہ ایک جملہ " میرا جسم میری مرضی " کو ہماری ریاست پاکستان میں بڑی شہرت حاصل ہے اور یہ جملہ پاکستان کہ کچھ لبرل عورتوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا تھا اور اب بھی ہر سال 8 مارچ کو اس جملہ کو بڑی پزاری حاصل ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس جملہ کو تنقید کا نشانہ بنا کے روڑ پے نکل آتے ہیں تو کچھ لوگ اس جملہ کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں ۔ خیر میرا مقصد اس مسلہ پے بات کرنے کا نہیں بلکہ میرا مقصد سیاسی حقوق سے محروم گلگت بلتستان کے حق میں آواز بلند کرنا ہے۔ ویسے تو جمہوریت کے اصولوں سے تو بچہ بچہ واقف ہے اور جانتا ہے اس سیاسی نظام میں صوبوں کو خود مختاری حاصل ہوتی ہے۔ اور ماشااللہ سے ہمارے ملک میں بھی سندھ ، پنجاب اور کے پی کے خود مختار ہیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق صوبہ میں حکومت کرتے ہیں، ان کی اس خود مختاری کی مثال حال ہی میں وفاق نے کرونا سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہیں کیا تھا مگر سندھ کی صوبائی حکومت نے سندھ میں لاک ڈاؤن کر کے خودمختاری کا ثبوت دیا اور دوسری طرف گلگت بلتستان سیاسی حقوق حاصل کرنے کے لئے در در کی ڈھکو رے کہا رہا ہے مگر پھر بھی یہ علاقہ ہمیشہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس علاقے کی خودمختاری نہیں ہونے کہ ایک مثال حال ہی میں قائم ہوئی ۔ جب کرونا سے حالات نارمل ہوئے تو صوبائی حکومت نے لاک ڈاون نارمل کرنے کا فیصلہ کیا اور فیصلہ کے اگلے دن جب لوگ مارکیٹ میں کاروبار کھولنے نکل آئے تو ایک سیکیٹری نے بیان دیا کہ لاک ڈاؤن ختم نہیں کرے اور جو لوگ صوبائی اسمبلی کے فیصلے پے عمل کر کے باہر نکل آئے تھے اُن کو سیکیٹری کے حکم پے گرفتار کیا گیا۔ یعنی لوگوں کا منتخب کردہ وزیر علٰی اور اُس کی کیبنٹ کی اتنی بھی حثیت نہیں کہ ایک سیکیٹری اُن کے فیصلے کو مسترد کرتا ہے۔
آئے زرا گنتے ہیں گلگت بلتستان کو کن کن حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
۱۔ گلگت بلتستان جس ریاست کا حصہ ہے اُسی ریاست کے حاکم علٰی کو ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتے جب کہ دوسرے صوبوں کا منتخب کردہ وزیر عظم اس علاقے پے حکومت کرتا ہے۔
۲۔ گلگت بلتستان کا کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا ہے کی وہ ملک کا صدر بنے۔
۳۔ کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کی وہ اس ملک کی آرامی کا سربراہ بنے۔
۴۔ گلگت بلتستان کا کوئی شخص ملک کا چیف جسٹس نہیں بن سکتا ۔
۵۔ افسوس کہ بات تو یہ ہے خود گلگت بلتستان کے اندر بھی چیف جسٹس، چیف سیکرٹری کو دوسرے صوبوں سے لا کے بنایا جاتا ہے۔
اس مظلوم علاقے کی محرومیاں بہت ساری ہیں مگر اس مضمون میں جمہوریت کے جو خاص اصولوں کی خلاف ورزی ہو رہی تھی ان کا زکر کیا۔
تمام صوبوں کو میرا صوبہ میری مرضی کا حق ہے تو گلگت بلتستان کو کیوں نہیں ؟
آخر کب تک اس علاقے کو متنازع علاقہ والا ڈراما بنا کے رکھے گے؟
کیا یہ علاقہ ہمیشہ ایسے محرومیاں سہتا رئے گا۔
کیا پاکستان کے نام نہاد حکمران ایسے ان کو قربانی کے بکرے بنا کے رکھے گے؟
کیا ہمشہ لوگوں کو جمہوریت کا نام دے کے آمریت کو قیام رکہا جائے گا؟
آخر کیوں اتنا ظلم کیوں اس علاقے پے ؟
گلگت بلتستان کے نوجوانوں کا اس ملک سے پیار کی مثال دے تو یہاں کے تقریباً ہر کسی کے گھر والے نہیں تو کسی رشتہ دار نے ضرور اس وطن کی تحفظ کے لئے جان کی قربانی دی ہے۔ اور اس علاقی کی فوجی یونٹ NLI نے ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر اس علاقے کو پاکستان کے نام نہاد لیڈروں نے "میرا صوبہ میری مرضی" کے بجائے "آپ کا صوبہ ہماری مرضی " والا فارمولا استعمال کیا ہے ۔
ریاست پاکستان پے حکومت کرنے والے نام نہاد لیڈر یہ بھی جانتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کو بنیادی حق حاصل نہ ہونے کہ بنیاد پے لوگوں نے الگ وطن کا مطالبہ کیا اور آخر کار ان کی محنت رنگ لے آئی ۔ برصغیر کے اندر ہندوؤں نے مسلمانوں کو حق سے محروم رکھنا چاہا مگر اُن کی یہ سازش نہ صرف ناکام رہی بلکہ اپنی وطن کو اپنی ماں کہنے والے ایک علاقہ کو تقسیم کر کے بیٹھ گئے ۔
اللہ نہ کرے پاکستان کے اندر بھی ایسا ہو مگر یہاں کے حکمرانوں کا رویہ گلگت بلتستان والوں کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسے برصغیر کے اندر مسلمانوں کے ساتھ تھا۔
اس علاقہ میں بھی کافی سارے لوگ اس حق کے لیے آواز بلند کر چکے ہیں مگر پاکستان کی آرمی اور خفیہ ایجنسیاں ان کو خاموش کرا رئے ہیں۔ زرا سوچے کب تک طاقت کے زریعۓ ان کی آواز کو دباتے رہو گے۔ آپ تو خوب جانتے ہو برصغیر کے اندر بھی لاکھوں جانیں چلی جانے کے باوجود بھی پاکستان کے خواب کو پورا کیا۔
یہ کبھی ممکن نہیں طاقت کے زریعے لوگوں کے حقوق چھین تے رہو گے۔ اب بھی وقت ہے اس علاقے میں باغیوں کو پیدا کرنے کا موقع فرائم کرنے کے بجائے ان کو میرا صوبہ میری مرضی کا حق دے دیا جائے۔
اب لوگوں کے اندر سیاسی شعور دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور اب لوگوں کو آٹے میں سب سی ڈی کے بجائے سیاسی حقوق چاہے۔
اب اس علاقے کے نوجوان آواز بلند کرنے لگے ہیں اور اگر اب نوجوانوں کی آواز کوئی دبا نہیں سکتا۔ پاکستان کے اداروں سے گزارش ہے ان نوجوانوں کو باغی بن نے پے مجبور نہیں کیا جائے۔ اس علاقے کو سیاسی حقوق دے کے ان کی وفاداری کو اس وطن کے لیے قائم رکھے۔ گلگت بلتستان کے لوگ کتنے وفادار ہیں یہ ہر کوئی جانتا ہے کیونکہ اس علاقے کو سیاسی حقوق سے محروم رکھنے کے باوجود بھی آج تک خود سے بھی زیادہ اس وطن سے محبت کرتے رہے اور اپنی جانوں کا نظرانہ دیتے رہے ہیں ۔ اب بھی لوگوں کے دلوں میں اس وطن عزیز کے لئے بے انتہا محبت پائی جاتی ہے مگر جی ہاں پاکستان کے نام نہاد حکمرانوں سے اب نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ تحریر کے آخر میں ایک دفعہ پھر اس بات پے زور دیا جاتا ہے کہ اس علاقے کو میرا صوبہ میری مرضی کا حق دے کے مستقبل میں اس ملک کی بہتری کا سوچے
وسلام
Comments