چاند جوبن پہ تھا تاروں نے بہت رقص کیاچاندنی رات تھی پھولوں نے بہت رقص کیامیرا دشمن ہے شرمسار مجھے دے کے شکستپر مری مات پہ یاروں نے بہت رقص کیااس نے دریا میں محبت سے گرایا پتھررات بھر وجد میں لہروں نے بہت رقص کیاکون کہتا ہے فقط میں نے ہی ڈالی ہے دھمالعشق کے نام پہ دونوں نے بہت رقص کیاکیا بتاؤں میں تجھے لذت مستی کا سرورہاتھ جب رک گئے قدموں نے بہت رقص کیا کتنی مشکل سے بسر کی ہے خدا جانتا ہےگھر کی دہلیز پہ فاقوں نے بہت رقص کیاصائم آکاش پہ آوارہ ستاروں کی طرحاس کے رخسار پہ زلفوں نے بہت رقص کیاصائم بلتستانی
Comments